سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو
کسی کے حال کی مجھ کو خبر کچھ دیر رہنے دو
جڑے ہیں ان سے نادیدہ پرانے بام و دروازے
نئے شہروں میں یہ ویران گھر کچھ دیر رہنے دو
کہیں گزرے ہوئے ایام پھر واپس نہ آجائیں
دل بے خوف میں اس کا خطر کچھ دیر رہنے دو
صبا کس رنگ سے باغوں میں چلتی سیر کرتی ہے
اسے اس اپنی دھن میں بے خبر کچھ دیر رہنے دو
منیر اس عالم روشن میں رہنا اور خوش رہنا
ابھی اس دن سے آگے کا سفر کچھ دیر رہنے دو