سحر کے خواب کا مجھ پر اثر کچھ دیر رہنے دو
کسی کے حال کی مجھ کو خبر کچھ دیر رہنے دو

جڑے ہیں ان سے نادیدہ پرانے بام و دروازے
نئے شہروں میں یہ ویران گھر کچھ دیر رہنے دو

کہیں گزرے ہوئے ایام پھر واپس نہ آجائیں
دل بے خوف میں اس کا خطر کچھ دیر رہنے دو

صبا کس رنگ سے باغوں میں چلتی سیر کرتی ہے
اسے اس اپنی دھن میں بے خبر کچھ دیر رہنے دو


منیر اس عالم روشن میں رہنا اور خوش رہنا
ابھی اس دن سے آگے کا سفر کچھ دیر رہنے دو



مجھے آج بھی یاد ہے وہ سردیوں‌کی شام، جب اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا
" آپ کے ہاتھ بہت گرم ہیں اور یہ وفا نبھانے والوں کی نشانی ہے۔ "
میں بہت خوش تھا، اتنا خوش کہ یہ بھی بھول گیا کہ اُس شام اُس کے ہاتھ کتنے سرد تھے
!!!....محبت اب نہی ہو گی